تحریر: ڈکٹر فرمان علی سعیدی شگری
اقوام عالم پر انقلاب اسلامی کا اثر
چونکہ انقلاب اسلامی ایک عوامی انقلاب تھا اس لیے اقوام عالم کو اپنی طرف متوجہ کیا اور عوام نے اسکو مستضعفین کیلیے نیک شگون سمجھا۔ البتہ انقلاب کی مقبولیت اور حمایت کہیں زیادہ اور کہیں کم تھی جسکی مختلف مذبہی اور سیاسی وجوہات تھی۔ ایرانی عوام کے انقلابی مقاصد میں جتنی یک جہتی تھی، اسی اعتبار سے اسے دیگر اقوام میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ چونکہ ان اقوام کےارباب اقتدار اپنی عوام کی امنگوں کی ترجمانی نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ ان میں سے اکثر حکمران طبقاتی اقتدار کو پسند کرتے تھے اور ایک خاص ٹولہ کی اقتدارتھی، وسایل اور حکومت پر قابض تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انکی حکومتیں ایرانی شہنشاہیت کے ساتھ زیادہ شباہت رکھتی تھی۔ دنیا کے مظلوموں اور اکثر عوام نے اس انقلاب کے ساتھ ہمدردی اور ہمدلی کا اظہار کیا۔ دوسری طرف کیونکہ اسلامی انقلاب میں ثقافتی اور مذہبی پہلو زیادہ نمایاں تھا اور دینی احکامات کو اس ملک میں نفاذ کرنے کیلے یہ انقلاب برپا ہوا تھا، اسلیے وہ قومیں جو ثقافتی اور مذہبی حوالہ سے ایران کے ساتھ زیادہ نزدیک تھی، اس انقلاب سے زیادہ مثاتر ہوئی۔ اسی بناء پر مسلمان قوم خصوصیت کے ساتھ شیعوں نے سب سے زیادہ انقلاب اسلامی کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا۔ اور در واقع وہ اپنا انقلاب سمجھتے تھے۔ انقلاب کا اثر ان معاشروں پر بہت کم پڑھا جن کے ایران کے ساتھ روابط اچھے نہ تھے۔جسکی وجہ سے انقلاب اسلامی کے حوالے سےان تک صحیح خبریں نہیں پہنچتی تھی، یا یورپی ممالک، امریکہ اور وہ ممالک جو یورپ اور امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کئے ہوۓ تھے، ان ممالک نے میڈیا اور خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعہ اس انقلاب اور نظام کے خلاف کھل کر غلط اور منفی پروپیگنڈہ کیا گیا۔
بین الاقوامی نظام پر انقلاب اسلامی کا اثر
جس وقت اسلامی انقلاب قائم ہوا، اس وقت عالمی معاشی اور سیاسی نظام مغربی سرمایہ داری اور لیبرال ڈیموکریسی کی بنیاد پر چل رہا تھا جو تقریبا چار صدیوں سے ایک کامیاب سسٹم کی حیثیت سے عالمی سوسائٹی پرراج تھا۔ دنیا میں فکری، ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی تمام جدید نظریات، مغرب میں بھی مطرح ہوۓ ۔ اور بغیر کسی مخالفت کے انکو قبول بھی کیا گیا ۔ درحالیکہ اسلامی انقلاب نے ان تمام شعبہ حیات میں مغربی نظریات کو چیلنیج کیا اور اسکے مقابلے میں ایک جدید نظام متعارف کرایا ۔ لہذا بہ طور نتیجہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کی وجہ سے مغربی افکار اور نظریات پر عالمی سطح پر گہرا اثر پڑا جسکی اثرات عالمی سیاست پر نمایاں ہونے لگے، جن کو ہم ذیل میں بیان کریں گے۔
ایک جامع مکتب اور دین کی حیثیت سے عالمی سطح پر دین اسلام کا احیاء۔
اسلامی انقلاب کا سب سے نمایاں پہلو، اسلامی افکار اور اقدارکا احیاء تھا کیونکہ انقلاب کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اقوام عالم، خصوصیت کے ساتھ اسلامی دنیا کو، دین اسلامی کی مبانی، افکار اور نظریات سے آگاہ کرنا تھا۔ اسلامی انقلاب نے دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ ادیان مخصوصا دین اسلام 14 سو سال گزرنے کے باوجود اور مغرب کی ہوش ربا ترقیوں کے باوجود، نہ فقط اسکی اہمیت میں کمی آئی ہے بلکہ آج بھی مادیات میں ڈوبے ہوۓ انسانیت اور اس کائنات میں عالم بشریت اور مظلوموں کی نجات کا واحد راستہ دین اسلام کے فرامین پر عمل پیرا ہونے میں مضمرہے۔ اور دنیاوی لذات میں ڈوبے ہوۓ انسان کو صرف دین اسلام نجات دلا سکتا ہے۔ انقلاب نے روحی طور پر مردہ بشریت کیلیے ایک معنوی طاقت اور دینی اعتقادات کا دوازہ کہولا۔ جس کے ذریعہ اقوام عالم خصوصیت کے ساتھ نوجوان نسل جو دنیا پرستی اور مادی پرستی کے دلدل میں پھسے ہوۓ تھے، اسلام نے اپنی اغوش لیا، ، اسلامی انقلاب کے بعد قرآن اور اسکی آیات ایک نیا معنی اور مفہوم پیدا کرنے لگی۔
دنیا کے بڑی تعداد کے ملکوں میں اس انقلاب کے آئیڈیل اور حوصلہ آفزائیوں نے اسلامی سیاسی گروہوں کو تقویت ملی اور وہ زيادہ محرک ہوگۓ۔ (مصر، سوڈان، نائجریا، روس، پاکستان اور فلپائن) وغیرہ۔
ایران کے انقلاب نے اسلامی افکار اور آئیڈیالوجی کو بیدار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا(سوڈان، مصر، ملیشا اور انڈونیشا)
عمومی سطح پر ایرانی انقلاب کے آئیڈیل اور کارکردگی کو بعض حکومتوں نے مناسب بہانہ اور دلیل قرار دیتے ہوۓ، اسلامی تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کی گئ۔(جاری ہے)